تیزی سے بدلتے دور میں والدین اور اساتذہ کے لیے بچوں کی تعلیم و تربیت پر جامع رہنمائی

تحریر عزیز احمد علی زئی*

آج کا دور برق رفتاری سے بدل رہا ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی، مواصلات، اور معاشی میدان میں ایسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن کا تصور بھی چند دہائیاں قبل ممکن نہ تھا۔ اس ماحول میں انسان کو کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، لیکن ان میں سب سے اہم چیلنج اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت ہے—ایسی تعلیم جو نہ صرف جدید ہو بلکہ معیاری، مقصدی اور اخلاقی بنیادوں پر بھی استوار ہو۔ *یہ تحریر ہر اُس والدین اور استاد کے لیے ہے جو اپنے بچوں کو آنے والے وقت کے لیے تیار دیکھنا چاہتا ہے* ۔ ہمیں یہ حقیقت سمجھنی ہوگی کہ آج کا روایتی تعلیمی نظام تیزی سے بدلتے حالات کے ساتھ نہ صرف غیر مؤثر ثابت ہو رہا ہے بلکہ ہماری نئی نسل کے قیمتی وقت کا ضیاع بھی بن چکا ہے۔جب دنیا ترقی کی دوڑ میں چہارم جماعت سے بچوں کو کمپیوٹر پروگرامنگ، کوڈنگ، اور ڈیجیٹل مہارتوں سے لیس کر رہی ہے، ہم صرف ایم فل اور پی ایچ ڈی اسکالرز کو تھیسس لکھنے کے لیے لیپ ٹاپ فراہم کر رہے ہیں۔ اس فرق کو کم کرنے کے لیے ہمیں حکومت کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنی مدد آپ کے تحت اقدام اٹھانے ہوں گے۔یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے بیشتر بچے آٹھویں جماعت کے بعد بغیر نقل کے ایک امتحان بھی پاس نہیں کرسکتے۔ بلوچستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 90 فیصد طلبہ میٹرک تک ریاضی پڑھنے کے باوجود پرائمری درجے کی ریاضی سے بھی ناآشنا ہیں۔ اس افسوسناک صورتحال کی کئی وجوہات ہیں، جن کی تفصیل یہاں ممکن نہیں، لیکن اس کا حل والدین، اساتذہ اور طلبہ کی مشترکہ کوششوں سے ممکن ہے۔. ریاضی جدید تعلیم کا لازمی عنصر ہے اسی لیے اسے دلچسپ بنائیں:ریاضی کو ایک بوجھ کے بجائے کھیل بنا دیں۔ بچوں کو روز مرہ کے حساب کتاب میں شامل کریں۔ ان سے گروسری، جیب خرچ، یا وزن کی پیمائش جیسے چھوٹے چھوٹے کام کروائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر لٹریسی پر توجہ دیں۔ آن لائن مفت کورسز آسانی سے دستیاب ہیں جن سے بچے کمپیوٹر کی بنیادی سمجھ اور آگے جا کر آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی دنیا میں قدم رکھ سکتے ہیں۔ انگلش کو زبان کی طرح سکھائیں:انگلش گرائمر کے سخت اصولوں کے بجائے بچے کو سادہ اور روزمرہ استعمال کی انگلش سکھائیں۔ بولنے، سننے، پڑھنے اور لکھنے کی مسلسل مشق کروائیں۔ جیسے بچے اردو بغیر گرائمر کے سیکھتے ہیں، ویسے ہی انگلش بھی سیکھ سکتے ہیں—صرف تسلسل اور مشق کی ضرورت ہے۔اور اگر بچہ سائنس میں دلچسپی رکھتا ہے تو اس کی رہنمائی کریں کہ وہ سائنس کے کس شعبے میں آگے بڑھ سکتا ہے۔ بچوں پر ہر سائنسی مضمون کا بوجھ ڈالنے کے بجائے اس کی دلچسپی اور مہارت کے مطابق سمت متعین کی جائے اور صرف سائنس کے اس متعلقہ شعبے کے لیے اسکی ذہن سازی کرے .تمام سوالات کو کاپی پر لکھوانا اور زبانی یاد کرانا تعلیم کا ایک پرانا، بے جان اور غیر مؤثر طریقہ بن چکا ہے۔ آج کے دور میں علم صرف رٹنے سے نہیں، سمجھنے، مشاہدہ کرنے، سوال کرنے اور تجربہ کرنے سے آتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جیسے فن لینڈ، جاپان، اور کینیڈا میں بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی پراجیکٹس، گروپ ورک، تجربات اور سوالات کے ذریعے سیکھنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ وہاں رٹہ لگوانے کے بجائے ہر طالبعلم کی سوچ، دلچسپی اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ بچوں کا وقت ضائع کرنے کے بجائے انہیں ایسے ماحول میں تعلیم دیں جو اُن کے ذہن کو جگائے، نہ کہ صرف یادداشت کو تھکائے۔ لائف سکلز کو نصاب کا حصہ بنائیں:خود اعتمادی، فیصلہ سازی، اور تنقیدی سوچ جیسی مہارتیں بچے کی زندگی کے ہر پہلو میں کارآمد ہوتی ہیں۔ انہیں صرف رٹہ سکھانے کے بجائے سوال کرنے، تحقیق کرنے اور اپنی رائے پیش کرنے کی تربیت دی جائے۔ اسکولوں میں مباحثے، پروجیکٹس، اور گروپ سرگرمیوں کے ذریعے ان صلاحیتوں کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ہو۔ بچوں کو عقیدہ، ایمان، اور اسلامی اقدار کی تعلیم دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آج کے دور میں غلط معلومات، گمراہ کن نظریات، اور دین کے نام پر گمراہی عام ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو کسی مستند اور باعمل عالم دین کی صحبت دی جائے، تاکہ وہ دین کو سیکھیں اور اس پر عمل بھی کر سکیں۔ان سب باتوں کو سمجھنے کے باوجود اگر ہم آج بھی بچوں کو صرف ڈائری لکھوانے، روزانہ ٹیسٹ لینے، اور ٹیچر کے "Good" کے ریمارکس پر مطمئن ہو گئے تو یاد رکھیں، کل یہ بچے ایسے مسائل کا سامنا کریں گے جن کا حل ہمارے پاس نہیں ہوگا۔ ہمیں سوچنا ہوگا، سمجھنا ہوگا اور فوری عملی قدم اٹھانا ہوگا۔ تعلیم صرف نمبروں کی دوڑ نہیں بلکہ آنے والی زندگی کی تیاری ہے—اور یہ تیاری ہمیں آج ہی سے شروع کرنی ہوگی۔Published on 6 May 2025 *Www.youthleadersbalochistan.com

https://whatsapp.com/channel/0029Va82NLNBqbrF3uhZnG1D *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *