: حکومت ،اساتذہ اور والدین سے ضروری گزارشات تحریر عزیز احمد علی زئی 2019 میں پاکستان میں ایک اہم تعلیمی فیصلہ سامنے آیا جب وفاقی حکومت نے ملک بھر میں یکساں قومی نصاب (Single National Curriculum) کے نفاذ کا اعلان کیا۔ اس اقدام کا بنیادی مقصد تعلیمی نظام میں یکسانیت لانا، طبقاتی فرق کو ختم کرنا اور ہر بچے کو مساوی مواقع فراہم کرنا تھا۔بلوچستان نے اس پالیسی کے تحت گزشتہ تین سے چار سالوں میں تجرباتی بنیادوں پر اسے نافذ کیا، جس کے تحت پرائمری یعنی پانچویں جماعت تک بچے انگریزی میڈیم میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، جبکہ ششم سے دہم تک دوبارہ اردو میڈیم رائج کر دیا جاتا ہے۔ پھر کالج کی سطح پر ایک بار پھر انگریزی میڈیم نافذ ہوتا ہے۔ اس مسلسل تبدیلی نے طلبا کے لیے نہ صرف ذہنی دباؤ پیدا کیا ہے بلکہ ان کے سیکھنے کے عمل میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔یہ بات خوش آئند ہے کہ پرائمری سطح پر سائنس اور ریاضی جیسے مضامین کو انگریزی میڈیم میں شامل کیا گیا، کیونکہ یہ عالمی رجحانات سے ہم آہنگ قدم ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ یہ تسلسل ششم سے دہم تک برقرار نہیں رکھا گیا۔ اس لیے محکمہ تعلیم بلوچستان کو فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ سائنس اور ریاضی کو میٹرک تک انگریزی میڈیم میں جاری رکھا جا سکے۔جب تک حکومت اس پالیسی کو مکمل طور پر نافذ نہیں کرتی، اس وقت تک تمام اساتذہ پر لازم ہے کہ وہ اردو میڈیم میں پڑھاتے ہوئے بھی بچوں کو سائنسی اور ریاضیاتی اصطلاحات انگریزی میں سکھانے کی کوشش کریں تاکہ طلبا میں آہستہ آہستہ ان اصطلاحات کی سمجھ بیدار ہو۔ مزید یہ کہ وہ اساتذہ جو انگریزی میڈیم میں تدریس کے اہل نہیں، انہیں اسلامیات، معاشرتی علوم اور اردو جیسے مضامین پڑھانے کی ذمہ داری دی جائے تاکہ ہر مضمون کے لیے موزوں استاد دستیاب ہو۔یہ بھی قابل ذکر ہے کہ بلوچستان میں پچھلے پانچ برسوں کے دوران CTSP، SBK اور حالیہ کنٹریکٹ کے تحت جو اساتذہ بھرتی کیے گئے ہیں، ان میں سے تقریباً 80 فیصد اساتذہ اس قابل ہیں کہ سائنس اور ریاضی کو انگریزی میڈیم میں مؤثر انداز سے پڑھا سکیں۔ ان اساتذہ کو موقع دیا جانا چاہیے تاکہ طلبا کو جدید اور معیاری تعلیم میسر آ سکے۔ساتھ ہی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مہنگے اور مختلف پرائیویٹ پبلشرز کی کتابوں کے بجائے حکومت کی منظور شدہ نصابی کتب کو ترجیح دیں۔ حکومتی سطح پر شائع ہونے والے نصاب میں ماہرین کی ٹیم برسوں کی تحقیق، غور و فکر اور تدریسی مہارت کو مدنظر رکھ کر مواد تیار کرتی ہے، جو کہ بچوں کی ذہنی سطح، قابلیت اور وقت کے مطابق ہوتا ہے۔ دوسری طرف، پرائیویٹ پبلشرز کی کتابوں میں اکثر غیر ضروری مواد اور اضافی بوجھ شامل ہوتا ہے، جس سے نہ صرف بچے دباؤ کا شکار ہوتے ہیں بلکہ اساتذہ اور والدین بھی پریشان رہتے ہیں۔ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ تمام اساتذہ، والدین، اور تعلیمی ادارے یکجا ہو کر ریاضی، سائنس اور انگریزی جیسے مضامین پر خاص توجہ دیں۔ یہی مضامین طلبا کو مستقبل کے مقابلوں، چیلنجز اور عالمی معیار کی تعلیم کے لیے تیار کریں گے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ترقی یافتہ قوموں کا سامنا اعتماد سے کریں تو ہمیں تعلیمی پالیسی میں تسلسل، معیار اور یکسانیت کو ترجیح دینا ہو گا۔آخر میں یہ بات بڑے درد دل کے ساتھ کہنی پڑتی ہے کہ حکومت، محکمہ تعلیم اور اعلیٰ افسران کی تمام تر کوششیں، منصوبہ بندی اور پالیسیاں اس وقت تک ثمر آور نہیں ہو سکتیں جب تک اساتذہ خود اپنے پیشے کے ساتھ مخلص نہ ہوں۔ اصل تبدیلی کلاس روم میں آتی ہے، اور کلاس روم کا بادشاہ استاد ہوتا ہے۔ اگر ہر ٹیچر اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر اپنی ذمہ داری کو عبادت سمجھ کر ادا کرے، تو یقین جانیے کہ اس کا بدلہ اسے آخرت کے ساتھ اسی دنیا میں بھی ضرور ملے گا کہ رزق میں برکت غیر ضروری پریشانیوں سے نجات کے ساتھ ساتھ اس کی عزت ہر دل میں بیٹھے گی، اور مرتے دم تک وہ قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ حتیٰ کہ اس کے اخلاص کو اس کی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔ اور جو کچھ آخرت کے لیے کیا جائے، اس کا اجر تو انشاءاللہ یقینی ہے۔ اس لیے آئیں، ہم سب مل کر تعلیم کو صرف ایک نوکری یا مجبوری نہ سمجھیں بلکہ ایک مشن، ایک خدمت، اور ایک صدقہ جاریہ بنا دیں۔Published on 4 May 2025in www.youthleadersbalochistan.com