*نوکری کی سوچ: ایک ذہنی قید، ایک سوچی سمجھی سازش*
)نوجوانوں اساتذہ اور والدین کے لیے چشم کشا حقائق تحریر عزیز احمد علی زئی
برصغیر کے نوجوان آج بھی ایک خواب میں جیتے ہیں—سرکاری نوکری کا خواب۔ یہ خواب اتنا پختہ ہو چکا ہے کہ کامیابی کی تمام تعریفیں اسی ایک نکتے سے جڑی نظر آتی ہیں۔ گریڈ 17، 18 یا 20 کی ملازمت کو حاصل کرنا گویا زندگی کی سب سے بڑی جیت بن گیا ہے۔ لیکن یہ سوچ یکدم پیدا نہیں ہوئی، بلکہ یہ ایک طویل سازش کا نتیجہ ہے، جو انگریز سامراج نے برصغیر میں اپنے اقتدار کو مستحکم رکھنے کے لیے بنائی تھی۔انگریزوں نے یہاں کے باشعور اور باصلاحیت افراد کو ایک محدود دائرے میں قید کرنے کے لیے سرکاری ملازمت کو عزت، استحکام اور کامیابی کی علامت بنا دیا۔ تعلیم کا مقصد علم اور شعور کی بیداری سے بدل کر محض ملازمت کے حصول تک محدود کر دیا گیا۔ یوں آہستہ آہستہ پوری قوم کی ذہن سازی یوں ہوئی کہ اگر نوکری مل گئی تو گویا سب کچھ حاصل ہو گیا، اور اگر نہ ملی تو سب کچھ ضائع۔آج کا نوجوان، چاہے وہ کتنا ہی باصلاحیت ہو، جب تک سرکاری ملازمت حاصل نہ کر لے، اسے خود پر یقین نہیں آتا، نہ ہی معاشرہ اسے مکمل تسلیم کرتا ہے۔ یہ وہی ذہنی غلامی ہے جس کی طرف جارج برنارڈ شا اور امام غزالیؒ جیسے مفکرین نے اشارہ کیا کہ انسان کی اصل قید جسم کی نہیں، سوچ کی ہوتی ہے۔ذرا دنیا پر نظر دوڑائیے۔ ترقی یافتہ اقوام میں تعلیم کا مطلب محض ڈگری نہیں بلکہ نئی راہیں نکالنے کی تربیت ہے۔ وہاں کے نوجوان صرف نوکری نہیں ڈھونڈتے، بلکہ کام، ایجاد، تحقیق اور مسائل کے حل کی تلاش میں لگے ہوتے ہیں۔ گوگل، مائیکروسافٹ، ٹیسلا، اسپیس ایکس، علی بابا، اور دیگر کامیاب ادارے ایسی ہی سوچ کے نتیجے میں وجود میں آئے۔ وہاں کے تعلیمی ادارے صرف ملازمت کے خواب نہیں بیچتے، بلکہ تخلیق کی تحریک دیتے ہیں۔ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ سول سروس اور پبلک سروس کمیشن جیسے اداروں کی پوسٹس گنتی کی ہوتی ہیں، مگر امیدوار کروڑوں میں۔ جب ہم اپنے تمام نوجوانوں کو صرف ان چند نوکریوں کے پیچھے دوڑاتے ہیں تو ہم خود ایک نسل کی تخلیقی صلاحیتوں کو ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ لاکھ کوشش کے باوجود، یہ حقیقت ہے کہ سب کو سرکاری ملازمت مل ہی نہیں سکتی کیونکہ اتنی آسامیاں ہیں ہی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اساتذہ، والدین، پالیسی سازوں اور بااثر شخصیات کو آگے آنا ہوگا۔ ہمیں نوجوانوں کو صرف ملازمت کی دوڑ میں جھونکنے کے بجائے علم، ہنر، کاروبار، تحقیق، ٹیکنالوجی، سوشل انٹرپرینیورشپ، اور دیگر میدانوں سے روشناس کرانا ہوگا۔ انہیں یہ سمجھانا ہوگا کہ کامیابی صرف ایک سرکاری نوکری میں نہیں، بلکہ وہ ہر اُس کام میں ہے جو اخلاص، مہارت اور مقصد کے ساتھ کیا جائے۔وقت آ گیا ہے کہ ہم انگریزوں کی بنائی ہوئی سوچ کے حصار سے باہر نکلیں، اور اپنے نوجوانوں کو آزاد، باوقار، تخلیقی اور باعمل انسان بنانے کی طرف قدم بڑھائیں۔ کیونکہ اصل انقلاب صرف نوکری سے نہیں، علم و تخلیق سے آتا ہے۔
Published 3 May 2025Www.youthleadersbalochistan.com