تحری: عزیز احمد علی زئی
اگر تعلیمی نظام کو ایک عمارت تصور کیا جائے، تو پرائمری کلاسز اس کی بنیاد ہوتی ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جیسے جرمنی، فن لینڈ، جنوبی کوریا اور جاپان میں یہی سوچ غالب ہے۔ ان ممالک میں پرائمری اساتذہ کے لیے نہ صرف اعلیٰ تعلیمی قابلیت، بلکہ خصوصی تربیت اور بعض جگہوں پر تو پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی لازم ہوتی ہے۔ ان کی نظر میں پرائمری تعلیم صرف الف، ب، پ سکھانے کا عمل نہیں بلکہ ایک پوری نسل کی شخصیت سازی، فکری نشوونما اور جذباتی تربیت کا پہلا اور اہم ترین مرحلہ ہے۔
مگر افسوس کہ پاکستان میں، بالخصوص بلوچستان جیسے پسماندہ علاقوں میں، پرائمری سطح کو سب سے کم اہمیت دی جاتی ہے۔ یہاں پرائمری اساتذہ کے لیے کم از کم تعلیمی معیار اکثر میٹرک یا انٹرمیڈیٹ تک محدود ہوتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جس کلاس میں بچے سب سے زیادہ سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہاں سب سے کم تربیت یافتہ اساتذہ تعینات کیے جاتے ہیں۔
مزید افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کچھ مقامات پر پرائمری اساتذہ اپنے عہدے کو چھپاتے ہیں، کیونکہ وہ اس ڈر میں مبتلا ہوتے ہیں کہ لوگ انہیں کمتر سمجھیں گے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پرائمری استاد ایک قوم کی تعمیر میں وہ بنیاد رکھتا ہے جس پر مستقبل کا ہر ڈاکٹر، انجینئر، لیڈر یا سائنسدان کھڑا ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں کچھ تجاویز:
- تعلیمی معیار میں اضافہ: حکومت کو چاہیے کہ پرائمری اساتذہ کی بھرتی کے لیے کم از کم بیچلر ڈگری، (جو کہ الحمداللہ ایک دو سالوں سے لازمی قرار دیا گیا ہے )لیکن اس حوالے سے تربیت یافتہ اساتذہ کو ترجیح دینا لازمی ہے ۔ طویل مدتی ہدف کے طور پر پرائمری ایجوکیشن میں ماسٹرز ڈگری کا معیار ہو تاکہ ایک ٹیچر یکسو ہوکر پرائمری ایجوکیشن میں خدمات سرانجام دے کیونکہ اکثر دیکھا جاتا کہ پرائمری ٹیچرز پڑھاتے ابتدائی کلاسز کو اور تیاری کرتے ہیں سیکنڈری اسکول ٹیچر بننے کے لیے لیکن ایک ٹیچر جب پروفیشنل پرائمری ٹیچر ہوگا اسی پوسٹ پر اسکا وقار بحال ہوگا اسے مراعات ملینگے تو وہ سیکنڈری سکول ٹیچر بننے کی سوچ سے آزاد ہوگا
- پیشہ ورانہ تربیت: پرائمری اساتذہ کے لیے لازمی تربیتی کورسز متعارف کرائے جائیں، جن میں بچوں کی نفسیات، جدید تدریسی طریقے، اور اخلاقی تربیت پر زور دیا جائے۔
- عزت و وقار کی بحالی: سوسائٹی میں یہ شعور پیدا کیا جائے کہ پرائمری استاد کی حیثیت کسی بھی بڑے عہدے دار سے کم نہیں۔ میڈیا، سوشل پلیٹ فارمز، اور تعلیمی مہمات کے ذریعے ان کی خدمات کو اجاگر کیا جائے۔
- مراعات اور حوصلہ افزائی: پرائمری اساتذہ کو مالی و سماجی مراعات دی جائیں، جیسے خصوصی الاؤنس، ترقی کے مواقع، اور ایوارڈز تاکہ وہ فخر سے اپنے پیشے کو اپنائیں۔
- نصاب اور کلاسز کا معیار بہتر بنایا جائے: نصاب کو دلچسپ، فکری اور تخلیقی بنایا جائے تاکہ بچے شروع سے ہی سوچنے، سوال کرنے اور سیکھنے کے عادی بنیں۔
آخر میں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ایک استاد کسی بچے کے دل میں علم کی پہلی چنگاری روشن کرتا ہے، تو وہ استاد ہوتا ہے۔ اسی لیے ہمیں پرائمری تعلیم کو بنیاد سمجھ کر اس میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی، نہ کہ ایک بوجھ سمجھ کر نظر انداز کرے ۔کیونکہ جہالت کی دیواروں کو گرانا پرائمری استاد کو ہوتا ہے .پرائمری ایجوکیشن تعلیم کی پہلی اینٹ ہوتی ہے اور جب بنیاد مضبوط ہو تو عمارت بھی اونچی ہوتی ہے .لہٰذا اگر نسل بنانی ہے تو پرائمری تعلیم سنوارنی ہے.
Published:26/04/2025
www.youthleadersbalochistan.com